چین سے شروع
ہونے والا ناول کرونا وائرس اس
وقت پوری دنیا
میں پھیل چکا ہے۔ صرف چار ماہ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ جبکہ
پچیس ہزار کے قریب لقمہ اجل بن گئے۔
اس دوران اچھی
خبر یہ ہے کہ تقریباً سوا لاکھ کے قریب مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال
اٹھتا ہے کہ کیا ایک بار صحت یاب ہونے کے بعد اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ
ہمیشہ کے لیے ٹل گیا یا کوئی مریض دوبارہ بھی اس وائرس سے متاثر ہو سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب
معروف ماہر خرد حیاتیات مارک سَلِفکا کچھ یوں دیتے ہیں۔۔۔
"جی
ہاں، آپ وائرس سے کم از کم جزوی طور پر دوبارہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں
آپ کو اس سے بچ کر رہنا ہے ورنہ بچ نہیں پائیں گے۔"
ان کا مزید کہنا
تھا۔۔۔
"اچھی
بات یہ ہے کہ ایک بار جسم کا مدافعتی نظام اس وائرس کو ہرانے میں کامیاب ہو جاتا
ہے تو کچھ عرصے کے لیے اس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔"
یہاں قارئین کو
مدافعتی نظام کے متعلق مختصراً بتاتے چلیں کہ جب کوئی وائرس انسانی جسم پر حملہ
کرتا ہے تو جسم میں موجود سفید خلیات وائے کی شکل کے ضداجسام سالمات (اینٹی باڈیز)
بناتے ہیں۔ جو کہ ان وائرسز کے متعلق مدافعتی نظام کو خبردار کرتے ہیں کہ
"یہاں آؤ اور تباہ کر ڈالو اس گھُس بیٹھیے کو۔۔۔"
ایک اندازے کے
مطابق انسانی جسم ایسے دس لاکھ کھرب سالمات بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی ضد
اجسام یا اینٹی باڈیز ہی ہیں جو ناول کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے مرض کووڈ-19
کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحت یاب ہونے کے بعد اگر خدانخواستہ اسی مریض پر یہ
وائرس دوبارہ حملہ کرتا ہے تو جسم میں موجود مدافعتی نظام اس وائرس سے
"شناسائی" ہونے کے باعث موثر طریقے سے دفاع کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دشمن کو
لمبے عرصے تک یاد رکھتا ہے جلدی بھولنے والوں میں سے نہیں۔
یہاں یہ بات
قابلِ ذکر ہے کہ وائرس سے پیدا ہونے والی عام بیماریوں میں صحت یابی کے بعد کچھ
عرصے تک مدافعتی نظام بیماری کو دوبارہ حملہ آور نہیں ہونے دیتا۔ اسی بناء پر کہا
جا سکتا ہے کہ کووڈ-19 سے شفاء یاب ہونے والا مریض بھی محفوظ رہے گا۔ ہو سکتا ہے
معمولی علامات ظاہر ہو جائیں لیکن جان ہی گنوا دینے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
لیکن ٹھہریے
جناب پکچر کا آخری شاٹ ابھی باقی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں لفظ
"جزوی" استعمال کیا تھا۔ اس استعمال کی وجہ اب سمجھ آئے گی اور وہ یوں
کہ فی الحال ناول کرونا وائرس کو مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔ یہ جینوم میں
تبدیلی (میوٹیشن) کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے دوبارہ حملہ آور ہونے کی صورت
میں مدافعتی نظام کو اسے سمجھنے میں دقت پیش آئے۔ اور یہ ضدِ اجسام سالمات کو
للکارتا نظر آئے کہ ہمت ہے تو ڈھونڈ کر دکھاؤ۔
یہاں یہ بات بھی
قابلِ ذکر ہے کہ چین اور جاپان میں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں کووڈ-19 سے
صحتیاب ہونے والے مریضوں کو دوبارہ پھر سے یہ مرض لاحق ہو گیا۔ لیکن اس بارے میں
ڈاکٹر سَلِفکا کا کہنا ہے کہ یہ بالکل واضح نہیں کہ مریضوں کے جسم میں وائرس
دوبارہ پھیلا یا پہلے ہی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئے تھے۔ ان کے مطابق ہو سکتا
ہے ٹیسٹ رپورٹ منفی ہو لیکن "دہراؤ" کا وقت ابھی باقی ہو۔
ڈاکٹر سلِفکا کے
تکنیکی موقف کو ایک طرف رکھیں اور بات کریں دوبارہ پھیلاؤ کی تو کئی تحقیق دانوں
نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ وائرس اب ہر سال بالعموم سرد موسم میں ظاہر ہوتا
رہے گا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے حوالے سے
تحقیق کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
فی الوقت اس
وائرس کے دوبارہ متاثر ہونے سے بچنے کی تکنیک یہی ہے کہ پہلی بار ہی اسے پاس نہ
پھٹکنے دیں۔ دی گئی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ ہاتھ دھوتے رہیں اور فاصلے برقرار
رکھیں۔ تاوقتیکہ کہ اس کا کوئی مؤثر حل دریافت نہیں ہو جاتا یا پھیلاؤ رک نہیں
جاتا۔
مزید پڑھیے:
https://www.inverse.com/mind-body/can-you-catch-coronavirus-twice