کرونا وائرس! پاکستان کیا کرے


کرونا وائرس نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا ایک جینیاتی پیغام جو جسم میں داخل ہو کرخلیوں میں تخریب کاری کا باعث بنتا ہے۔ سرِدست اس کا کوئی علاج دستیاب نہیں۔ تادم تحریر بیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اورساڑھے چار لاکھ افراد مریض ہیں۔

اِس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ جان پائیں کہ وائرس کیا ہے؟ ہم من حیث القوم یا انفرادی طورپر اس سے بچاؤ کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ پاکستانی نظام صحت کتنا بوجھ برداشت کرسکتا ہے؟ پاکستان میں موجود مریضوں کی تعداد کا تخمینہ کیسے لگایا جاسکتا ہے اور کیسے ہم سب مل کر اس کو شکست دے سکتے ہیں؟ آپ اس لنک پر پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کا لائیو ڈیٹا دیکھ سکتے ہیں.

 
یہ مقام ہے اجتماعی توبہ کا، استغفار کا، صلہ رحمی کا اور ایک قوم بن کر اس مشکل سے مقابلے کا۔ اللہ سبحانه وتعالی کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے اور وہ ضرور ہم پر کرم کرے گا، ان شاء اللہ۔

کرونا وائرس کیا ہے؟
نوول کرونا وائرس جس کی ابتدا دسمبر 2019 میں چین سے ہوئی تھی۔ کروناوائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ وائرس ساٹھ کی دہائی سے ہمارے درمیان موجود ہے۔ یہ جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ الگ الگ انداز میں حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ سارس (SARS – Severe Acute Respiratory Syndrome) اور مرس (MERS – Middle East Respiratory Syndrome) کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ نئے آنے والے وائرس کو نول کرونا اور اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ ١٩ (COVID-19) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک زونوٹک وائرس ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ انسانی وائرس نہیں، لہذا اس کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بھی خاصی کمزور ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہ چمگادڑوں کے یا بجّو (پانگولان) سے انسانوں میں پھیلا۔ درمیان میں کوئی اور جانور بھی اسی تسلسل میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ کرونا وائرس میں مرنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایبوالا نے چار سالوں میں کوئی گیارہ ہزار لوگوں کو ہلاک کیا اور کرونا تین مہینوں میں اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے۔

 

کرونا کے خلاف اقوام کا طرزِ عمل
بات کرتے ہیں کہ اقوامِ عالم نے اس وبا کے خلاف بحیثیت ملک یا قوم کیا حکمتِ عملی اختیار کی۔ مختلف ممالک کے رویوں اور حالیہ اموات کو دیکھتے ہوئے ہم ان کے ردِعمل کو چھ درجوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

Stage -1
کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سب اُڑی اڑائی باتیں ہیں۔ بلاوجہ کا خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کو نہیں ہوگا۔ ہم پاک وصاف لوگ ہیں، چائنیز کی طرح چمگادڑ نہیں کھاتے، یہ مسلمانوں کے خلاف کفّار کی سازش ہے تاکہ طالبان کی جیت کی خبر کو دبایا جا سکے وغیرہ، وغیرہ۔ اور قوم کچھ نہیں کرتی بلکہ باقی ملکوں کی پریشانی پر مزے لیتی ہے. آج بھی بھارت میں اگر کچھ ہزار لوگ مرجائیں تو ہم لوگوں نے خدا کی لاٹھی کا جشن منانا ہے.

Stage -2
کچھ کیسز ملک میں سامنے آئے ہیں مگر ہم پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ محض اتفاق ہے۔ ان لوگوں نے سفر کیا ہوگا یا ان کے گناہوں کا صلہ ہے۔ بحیثیت ملک پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ انفرادی گناہوں کی اس جینیاتی تبدیلی (mutation ) کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی

Stage -3
اب ملک میں زیادہ کیسز ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ مر بھی جاتے ہیں۔ ہم پھر بھی وہی راگ الاپتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ یہ کچھ دنوں کی بات ہے۔ ہر چیز مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے۔ یہ تو تافتان اور سکھر میں ہے۔ میں تو کراچی، اسلام آباد میں رہتا ہوں، وغیرہ. اگر ملک بند کردیا تو لوگ کھائیں گے کہاں سے؟

Stage -4
اب کیسز مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ہلاکتیں بھی اسی رفتار سے. زیادہ لوگ ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں۔ اور جولوگ قرنطینہ میں بند تھے وہ وہاں سے فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ حکومت اب بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے  کہ آیا ملک کو بند کریں یا نہ کریں۔ وہ افراتفری میں کچھ جزوری اقدامات کرتی ہے مثلاََ ہوائی جہاز اورریل گاڑیوں کی آمدورفت کو بند کر دینا، کچھ گھنٹوں کا کرفیو لگا دینا وغیرہ۔ مگر اب دیر ہوچکی ہے۔ پاکستان آج کل اس اسٹیج پرہے۔ بقول شاعر

ع

نظر انداز کر مجھکو ذرا سا کھل کر جینے دے

کہیں ایسا نہ تیری نگہبانی سے مر جاؤں

Stage -5
زیادہ کیسز، زیادہ اموات، اب حکومت ہو یا عوام سب گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عوام ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتی ہے، حکومت ہر دوسری شئے کے اوپر کریک ڈاون کرتی ہے۔ صحت کا نظام بیٹھ جاتا ہے اور ملک گھنٹوں کے حساب سے چھکتا چلا جاتا ہے۔ حکمران بیماری یا کوئی اور بہانہ بنا کر سائیڈ پر ہو جاتے ہیں اور ملک کی نظم و نسق فوج کے پاس چلا جاتا ہے

Stage -6
مکمل شٹ ڈاوٗن۔ ملک گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر محلے میں لاشیں گرتی ہیں۔ نہ آپ غسل دے سکتے ہیں نہ جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کے لئے اچھوت ہوجاتا ہے۔ ملک کو خود ایک وینٹیلیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر وہ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔

ہمیں آج ہی سے سیلف آئسولیشن میں چلے جانا چایئے ورنہ اس وائرس کے پھیلنے کو روکنا تقریباََ  ناممکن ہوجائے گا۔

 

کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ
کرونا وائرس اور اس جیسی وباء کو روکنے کے لئے عموماََ چار جہتوں میں کام کرنا ہوتا ہے وہ بھی ایک ساتھ۔

Detection – جلد از جلد پتا لگا یاجاسکے کہ کون کون بیمار ہے اور کون نہیں اور کتنے لوگ آبادی میں بیمار ہیں۔

 
Treatment – مریضوں کی دیکھ بھال اور دوائیوں کی فراہمی۔

Cure – بیماری کا علاج دریافت کرنا۔

Prediction – تخمینہ لگانا کہ اس سے کتنے لوگ متاثر ہوپائنگے اور ہم کیا کرینگے تا کہ ان کی تعداد کوکم کیا جاسکے۔

لوگوں کی تعداد کو کم رکھنا کہ کم سے کم لوگ اس وائرس کا شکار ہوں۔ کسی بھی ملک کی اولین ترجیح ہوتا ہے یا کم از کم ان کے بیمار ہونے کی رفتار  کو کم کرسکیں تاکہ ایک ہی وقت میں بہت سارے لوگ ہیلتھ سسٹم کو ناکارہ نہ بنا دیں۔

 
اس امر میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ بہت ضروری ہے ۔ یہ ناک اور حلق سے رطوبت کے نمونے سے کی جاتی ہے جسے سواب کہتے ہیں اور پھرRT- پکڑ کے زریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا مریض کو کرونا ہے بھی یا نہیں۔ اس عمل میں تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان نے تادمِ تحریر پانچ ہزار چار سو چوالیس ٹیسٹ کئیے ہیں جن میں سے ۷۸۴ پازیٹو آئے ہیں یعنی کی چودہ فیصد، جو ایک انتہائی پریشان کن بات ہے۔ باقی ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم نے فی ملین صرف چوبیس ٹیسٹ کئے اس لئے ہمارے پاس کرونا وائرس کے مریضوں کی تعد کم نظر آرہی ہے۔ دنیا کی اوسطّّ پانچ سو ستر ٹیسٹ فی ملین ہے چائنہ نے فی ملین دوہزار آٹھ سو بیس اور ساوتھ کوریا نے تین ہزار چھ سو بانوئے ٹیسٹ فی ملین کئے ہیں۔ امریکہ روازانہ کی بنیاد پر تقریباّ سولہ ہزار ٹیسٹ کر رہا ہے ۔ جتنے زیادہ ٹیسٹ ہونگے اتنے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے۔

 
انڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ اس نے چھ سو چھتیس اضلاع میں سے صرف ۷۲ اضلاع میں چودہ ہزار ٹیسٹ کئے ہیں۔ ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد کم ہونا کوئی اچھی بات نہیں ۔ آپ چلتے پھرتے ایٹم بم پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ تمام لوگ جو وائرس کی زد میں آچکے ہیں مگر انجان ہیں اور باقی لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر متاثر کر رہے ہیں۔

ہیلتھ کا نظام (Health Infrastructure)
وبا کی صورت میں کسی بھی ملک میں صحت کی دستیاب سہولتیں پہلا ڈیفنس ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان میں صحت کی سہولتیں یا ہیلتھ انفراسٹرکچر کسی بھی طرح اس وبا سے نمنٹنے کا متمحل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی تعداد  دو لاکھ دس ہزار ہے اس میں سے کوئی پچیس ہزار ملک سے باہر کام کررہے ہیں ۔ آپ مکمل تعداد کو بھی دیکھیں تو قریباََ ہر ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر ہے ۔ اب ظاہر ہے ہر ڈاکٹر وبا پر تو کام نہیں کر رہا ہوگا۔ کوئی دل کا ڈاکٹر تو کوئی سماعت یا دماغ کا۔ بمشکل تمام ہم صرف بیس ہزار ایسے ڈاکٹرز جمع کر پائیں گے حو کہ کرونا کی وبا میں فرنٹ لائن کا کردار نبھا سکیں، یعنی ہر ایک لاکھ بیس ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر۔

پاکستان میں نرسوں کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار ہے یعنی ہر دو ہزار پاکستانیوں پر ایک نرس۔

 
ہاسپٹل بیڈز کی تعداد ایک لاکھ اُنیس ہزار ہے یعنی  دو ہزار پاکستانیوں پر ایک بیڈ۔ اور ہمارے ملک میں اس وبا سے نمنٹنے کے لئے سب سے  ضرور ی مشین وینٹی لیٹر ہے جن کی تعدا آٹھ سو تیرہ ہے جو کہ قابلِ استعمال حالت میں ہیں۔ یعنی دو لاکھ ستر ہزار پاکستانیوں کے لئے ایک وینٹی لیٹر۔ رول راولپنڈی اور اسلام آباد میں کل ملا کر صرف بیس وینٹی لیٹرز ہیں۔

کرونا وائرس آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور  آپ بغیر وینٹی لیٹر کے خود سے سانس  لینے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے میں اگر ہر دو لاکھ ستر ہزار لوگوں میں صرف ایک مشین دستیاب ہوگی تو آپ خود سمجھ جائیں کہ کتنے لوگ ہلاک ہونگے اور وہ مشین کس کے حصے میں آئے گی۔

 
اس حکومت کو فوراََ وینٹی لیٹرز کی ایمرجنسی نافذ کرنی چایئے جیسے پچھلی حکومتوں کے پاس یلو کیب تھیں۔ ایسے ہی گرین وینٹی لیٹرز بھی ہونے چایئے۔ امریکہ کے پاس ایک لاکھ ساٹھ ہزار وینٹی لیٹرز ہیں، ہمیں بھی کم از کم  ایک لاکھ گیارہ ہزار چاہیں تاکہ ہر دو ہزار بندوں پر ایک وینٹی لیٹر تو ہو۔ کوئی ملک آپ کا دوست ہے، کوئی این جی او آپ کی مدد کرنا چاہتی ہے، سیلانی ٹرسٹ ہو یا ایدھی، آئی ایم ایف  ہو یا ورلڈ بینک ، بل گیٹس ہو یا ملک ریاض، اقوام متحدہ ہو یا پاکستان آرمی، آپ صرف ایک بات کریں کہ وہ آپ کو وینٹی لیٹرز دے دیں اور ہم بحثیت قوم یہ احسان ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

حکومت نے عجلت میں مختلف شہروں میں قرنطینہ سینٹرز بنانے کا اعلان کیا ہے اس میں سوچ و بچار کی ضرورت تھی جو کسی نے نہیں کی۔ تافتان سے آئے ہوئے لوگوں کو آپ فیصل آباد جیسے آبادی والے شہر کے بیچوں بیچ زرعی یونیوسٹی میں قرنطینہ میں رکھوا رہے ہیں ۔ ایکسپو سینٹر کراچی میں دس ہزار بیڈز لگا دیئے۔ ان ۱۰ ہزارکنفرم کرونا کے مریضوں کی دیکھ کے لئے آپ کو کم از کم  چالیس ہزار بندے چاہیں۔

پاک فوج کا کردار اور جوانمردی سر آنکھوں پر، مگر کیا وہ وبائی امراض سے نمنٹنے کے لئے ٹرینڈ ہیں؟ فوج جان لینے کے لئے ٹرینڈ ہوتی ہے نہ کہ بچانے کے لئے ۔ پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ  کے بغیر ان سے کام کروانا قتل کے مترادف ہے۔  اب ان پچاس ہزار لوگوں کا کھانا کون لائے گا؟ یہ وائرس ائیر بورن ہو کر قریب کن بستیوں میں جائے گا۔  میڈیکل اور انسانی فضلہ کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا۔ مجھے ڈر ہے شہر کے بیچوں بیچ یہ  قرنطینہ سینٹرز کورونا کو پھیلانے کے ہاٹ سپاٹس نہ بن جائیں۔ آپ انٹرنیٹ پر جا کر امریکہ اور چائنا کے  Quarantine رومز دیکھیں اور پھر ان کا موازنہ قطار در قطار لگے ہمارے بستروں سے کریں آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی۔ ایک عام شخص گھر میں سیلف آئسولیشن میں  قرنطینہ سینٹر سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ جب تک وہ اپنے آپ کو سنبھال سکے۔ وبائی امراض کو سنبھالنے کے لئے میڈیکل سائنس میں کئی انٹرنیشنل پروٹوکولز ہیں جن کا خیال ہمارے قرنطینہ سینٹرز میں رکھنا ناممکن ہے۔

 
پاکستان کا ہیلتھ انفراسٹکچر کہیں سے بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کر سکے۔ ہم اگر ٹیسٹنگ اور وینٹی لیٹرز میں اپنی استعداد کو بڑھا سکیں تو ایک قابل ستائش کام ہوگا۔

ڈینگی ہر سال آتا ہے ،سارس اور مرس بھی، چکن گونیا اور برڈ فلوبھی تو اگر خدانخواستہ کرونا بھی اگلے سال لوٹ آیا تو ہم کم از کم پہلے ہی سے تیار تو ہونگے اور ہر بار ہمیں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کرنے پڑے گا۔ مزید جو ڈاکٹرز اور نرسز فرنٹ لائنس پر کام کر رہے ہیں ان میں سے بہت سے بیمار ہوجائنگے یا مر جائنگے اس سے ہماری استعداد پر مزید فرق پڑے گا۔

حکومت کیا کرے؟
آئیے بات کرتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں حکومت کیا کرسکتی ہے؟

پہلا کام جو ہمارے حکومت کو کرنا چایئے وہ یہ کہ مکمل شٹ ڈاون کر کے لوگوں کو گھر پر بٹھا دیں۔ انڈیا میں کرفیو لگ گیا ہے اور بارہ گھنٹوں کے لئے سعودی عرب میں شام سات بجے سے صبح چھ بجے تک کے لئے کرفیو ہے۔ امریکہ میں کیلیفورنیا، نیویارک سمیت دیگر ریاستیں تقریباََ بند ہوچکی ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ وائرس کے پھیلاو کو روک سکیں گے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے، لوگ کیا کریں گے ؟ اگر حکومت ہر بالغ پاکستانی کو ایک ہزار روپے گھر بیٹھا کر دے تو کل 1.2بلین ڈالرز بنے گے ایک سو ملین پاکستانیوں کے لئے۔ آپ نے حال ہی میں مردم شماری کی ہے خاندانوں کے سربراہ کا ڈیٹا آپ کے پاس ہے۔ آپ ان کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر بنا دیں اور موبائل فون کے ذریعے پیسے بھیج دیں جیسے ایزی پیسہ یا جاز کیش۔

 
ایسا کرنے سے  آپ ایک تیر سے بہت سے شکار کررہے ہیں۔ یہ سو ملین لوگ بیک وقت نادرہ سے متصل ہوجائیں گے ، ٹیکس نیٹ میں آجائین گے اور ڈیجیٹل والٹ استعمال کرنے لگے گیں اور شاید آپ کی بات سن کر گھر بیٹھ جائیں۔ اب ا سکے بعد جو شخص بغیر کسی مجبوری کے آپ کو سڑک پر ملے اسے دس ہزار جرمانہ کردیں۔

اب یہ نہ کہنا کہ ایسا کرنے کےلئے آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہم سالانہ نو سو ملین ڈالر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دو سو ملین ڈالر احساس پروگرام پر خرچ کرتے ہیں۔ ہم نے بجلی کے بل میں ٹیکس لگا کر نیلم جہلم ڈیم بنالیا ، ڈیم فنڈ میں پیسے جمع  کرلیتے تو بحثیت قوم ہم وینٹی لیٹر بھی خرید سکتے ہیں اور لوگوں کو یونیورسل بیسک انکم بھی دے سکتے ہیں۔

امریکہ اپنے ہر شہری کو ایک ہزار ڈالر دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یورپ نے بھی کچھ ایسا ہی کرنا ہے اور آئرلینڈ نے نہ صرف سولہ سو یورو ہر گھر کو دیئے بلکہ ان کی بجلی اور پانی کے بل بھی معاف کردئیے۔

کیوں نہ ہم اس مصیبت کو بہتری کے لئے استعمال کریں اور پورے ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا رجحان لے آئیں۔

ٹیلی کام کمپنیز اگر ایک ماہ کے لئے تمام صارفین کو انٹرنیٹ کی سروس مفت فراہم کریں تو لوگ گھر بیٹھ کر آن لائن کورسز بھی کرسکتے ہیں، اور کمپنیز کی رقم اشتہارات سے باآسانی پوری ہوجائیگی۔ یہ وقت نفع نقصان سوچنے کا نہیں یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ملک کی بہتری کے لئے کام کریں۔

اگر آپ ان 1.2بلین ڈالرز کو بچانے کو سوچ رہے ہیں تو متبادل دیکھئیے۔ ایک شخص کا کرونا ٹیسٹ تقریبا آٹھ ہزار میں ہورہا ہے۔ پورے ملک کے لئے آپ کو گیارہ بلین ڈالر چاہیئں۔ اگر کوئی شخص ہسپتال تک پہنچ گیا تو مریض کی لاگت بارہ سے پندرہ لاکھ تک آئیگی۔ یہ بنےتقریباً 2.2ٹریلین ڈالرز تو کیا ہی اچھی بات ہے کہ سینکڑوں گنا کم پیسہ لگا کر اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرلئیے جائیں جو سب کے لئے بہتر ہیں۔

دوسرا اہم کام جو حکومت کو کرنا چاہئیے وہ یہ کہ جو ڈاکٹرز اور نرسز اپنے فائنل ائیر میں ہیں انہیں فاسٹ ٹریک پر ڈال کر گریجوئٹ کردیں۔ برطانیہ نے ایسا ہی کیا ہے۔ اس طرح آپ کو اور زیادہ ڈاکٹرز اور نرسز مل جائیں گے۔ پاکستان میں جو ڈاکٹرز اور نرسز پاس آوٹ ہوچکے ہیں وہ بھی لائسینس کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ مزید یہ کہ ریٹائرڈ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو آن ڈیوٹی کال کرلیا جائے کہ بوجھ کچھ تو بٹے۔

تیسرا اور سب سے اہم کام جو حکومت کرسکتی ہے وہ ہے صحیح ڈیٹا کی بروقت دسیتا بی کا۔ کتنے لوگ ٹیسٹ ہوئے ، کتنے پازیٹو نکلے، کتنے سیلف قرنطینہ میں بھیجے گئے ، کب کس نے کہاں سفر کیا اور کن ملکوں سے آئے اور پاکستان کے کن شہروں میں گئے اور خاص طور پر مریض کی علامتی نشانیاں اور گذشتہ میڈیکل ہسٹری۔ یہ ڈیٹا اگر رئیل ٹائم میں ہم جیسے لوگوں کو دستیاب ہوجائے تو ہم مشین لرننگ،  آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور ڈیٹا سائنس کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا صورتحال ہوگی اور اس کی روک تھام کے لئے کون کون سے اقدامات کئے جائیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ تھوڑا سا ڈیٹا شائع کرتا ہے جو کمپیوٹر ماڈلنگ کے لئے ناکافی ہے۔ تھوڑی سی توجہ اور ریسورسز سے لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

چوتھا اور انتہائی اہم کام جو حکومت کو کرنا ہے وہ ہے جینوم سیکونسنگ مریضوں کے ٹیسٹ سے وائرس کا جینٹک کوڈ اخذ کرنا اور اس کے Strainکو محفوظ کرنا۔ اس وقت دنیا میں کورونا کے دو Strains سامنے آئے ہیں Lاور S۔ دنیا کے ممالک اپنے مریضوں کے وائرس جنیوم GISAIDاورگنبنک کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر رہے ہیں تاکہ جو بھی دوائیاں ایجاد کی جائیں وہ ان مریضوں پر بھی موثر ہوں اور اگر خدا نخواستہ  اس وائرس کا اگلا حملہ ہوتا ہے یا اگلے سال پھر کسی جنیاتی تبدیلی کے ساتھ واپس آتا ہے تو اس کی  بیخ کنی کی جاسکے۔

پانچواں اور آخری کام جو حکومت کو فوراََ کرنا ہے وہ یہ کہ عوامی آگہی مہم کا ملک گیر سطح پر اہتمام کیا جائے۔ مقامی زبانوں میں وال چاکنگ سے لے کر اخباروں میں اشتہارات تک اور ریڈیو، ٹی وی اناوئنسمنٹ سے لے کر محلے کی مسجدوں سے اعلان تک ۔ اس بیماری سے اور اس سے بچاؤ کے طریقے اور خدا نخواستہ لگ جانے کی صورت میں کرنے والے کاموں کی معلومات فراہم کی جائیں۔ یاد رکھیں وبائیں دوائیوں سے نہیں معلومات سے رکتی ہیں.

یاد رکھئے ایک اچھا لیڈر وہ نہیں ہوتا جس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہو۔ اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو بروقت صحیح سوال پوچھ سکے تاکہ ملک کے تمام لوگ اور ادارے فوکس رہ کر کام کرسکیں۔

عوام کیا کرے؟
سوشل ڈسٹینسنگ (social distancing) سماجی دوری ہمارے ملک میں ممکن نہیں۔ آپ یہ کیسے ممکن بنائیں گے کہ W-11میں سفر کرتے ہوئے ہر بندہ آپ سے چھ فٹ کے فاصلے پر ہو؟ یا کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں. سموسے کی دکان تک تو قطار لگی ہوتی ہے۔ یہ کام اتنی آبادی والے ملک میں ممکن نہیں۔

ہوم آئیسولیشن کے لئے اپنے آپ کو اپنے اہلخانہ کے ساتھ اپنے ہی گھر میں نظر بند کرلیں۔ نہ کوئی باہر آسکے نہ کوئی جاسکے۔ اس میں جتنی جلدی  ممکن ہو یہ کام کرسکیں تو اس سے بہتر کوئی بات ہوہی نہیں سکتی۔ چودہ دن، ایک ماہ، دو ماہ۔ ایسے میں آپ باہر موجود وائرس کو گھر نہیں لائینگے اور اگر خدانخواستہ خود آپ بیمار ہیں تو آپ اس وائرس کو دوسروں میں منتقل کرنے کا باعث نہیں بنیں گے۔

اس عمل کے ضمن میں سفر کو بھی ترک کردیں۔ ملک سے باہر جانا تو ویسے بھی ممکن نہیں رہا، مگر آپ ایک شہر سے دوسرے شہر بھی نہ جائیں۔ اپنے شہر اور محلے میں مٹر گشت سے پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ آفس کا کام بھی گھر سے ہی کریں ورنہ چھٹی لے لیں۔ جان ہی نہیں رہے گی تو مزید کیا کرینگے؟

گھر میں اگر کوئی خادم یا خادمہ ہے تو اگر وہ آپ کے پاس مستقل چوبیس گھنٹے کے لئے  ہے تو ٹھیک ورنہ آپ کچھ ماہ کے لئے ایڈوانس تنخواہ دے کر رخصت کردیں۔ کیونکہ آپ کو نہیں پتہ وہ کن جگہوں یا گھروں سے کون سے جراثیم لیکر آپ کے گھر تک پہنچتے ہیں۔ اگر وہ چوبیس گھنٹے آپ کے پاس رک سکتے ہیں تو بہت نیکی کا کام ہے کہ آپ اپنی صحت کے لئے جو ضابطے اور خوراک کے معیار کو قائم کریں گے اس پر کسی اور کا بھی بھلا ہوجائے گا۔

اگلی احتیاط یہ کریں کہ جانوروں کی منڈی یا گوشت مارکیٹ مت جائیں۔ یہ زونوٹک وائرس ہے جو جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور آپ کو نہیں پتہ کہ کونسا جانور اس کا آلہ کار ہو۔

مزید اپنی جسمانی و گھریلو صفائی کا خیال رکھیں۔ معیاری غذا کھائیں۔ اچھی نیند کریں تاکہ ایک مضبوط امنیاتی نظام اس وائرس سے لڑ سکے۔ ہاتھ دھونے کا ہم سب کو پتہ ہے۔ میں کیونکہ میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہوں اس لئے اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرسکتا ۔ کوشش کریں کہ گوشت بھی خوب پکا کر کھائیں۔

آئسولیشن کے دنوں کو کارآمد بنائیں۔ کتابیں پڑھیں۔ شعبان کا مہینہ ہے نمازیں پڑھیں۔ قرآن پڑھیں۔ آن لائن کورسز کریں اور تمام خواہشات جو آپ نے وقت کی کمی کے باعث رکھ چھوڑی تھیں اب انہیں پورا کرلیں۔

ایک اور ضروری کام یہ ہے کے کسی بھی خبر یا معلومات کو تصدیق کے بغیر آگے فارورڈ نہ کریں. اتنے دنیا میں مریض نہیں جتنے نسخے ہمارے لوگوں نے بنا لئے ہیں.

آخری اور اہم کام جو آپ کرسکتے ہیں وہ یہ کہ دو ہفتوں کا راشن گھر میں ڈال کر بیٹھ جائیں۔ میں آپ کو ذخیرہ اندوزی کی ترغییب نہیں دے رہا مگر جب کرفیو لگے گا تو کیسے خریداری کرینگے؟ یا بار بار آنے جانے سے وبا کی زد میں آنے کا خطرہ اپنی جگہ اور اشیاء خوردنی کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں اپنی جگہ۔ سورہ یوسف میں آنے والے دنوں کے پیش نظر خوراک جمع کرنے کا ذکر ہے جو آپ کسی بھی عالمِ دین سے سمجھ سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کا کردار
اگر آپ کمپیوٹر پرگرامرہیں یا آپ کی کمپنی سوفٹ وئیر ڈویلپمنٹ کا کام کرتی ہے یا آپ کا حکومتی ادارہ ان کاموں کا ذمہ دار ہے توآپ مندرجہ ذیل باتوں سے ملک کی مدد کرسکتے ہیں۔

جیو فینسنگ (Geo-Fencing) موبائل میں صارف کی لوکیشن کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ جو وہ سیل فون ٹاورز سے کال ڈیٹا ریکارڈ کے طور پر شئیر کر رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کرونا وائرس کے مریض کا فون نمبر ہے تو آپ باآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اس نے کہاں کہاں سفر کیا۔ اور پھر معلوم کرسکتے ہیں کہ وہاں سے اس شخص کی موجودگی میں کون کون گزرا۔ آپ ایسے تمام لوگوں کو ایس ایم ایس یا کال کے ذریعے آگاہ کرسکتے ہیں کہ انہیں شاید وائرس لگ گیا ہو اوروہ اپنا ٹیسٹ کروا لیں۔ تاکہ بروقت شناخت سے ہم اس وائرس کو پھیلنے سے روک سکیں۔ اس سافٹ ویئر کا مکمل کوڈ مٹ نے سفپٹہ کے نام سے مفت ریلیز کردیا ہے۔

ماڈلنگ –  وبائی امراض کی  فیلڈ کے لوگ Epidemic Modelling اور SIRماڈل سے بخوبی واقف ہیں۔ ایک سافٹ ویئر ڈویلپ کیا جائے جو ان تمام وبائی حملوں کا ریکارڈ رکھے۔ دنیاں میں سب سے پہلے کرونا وائرس کے خطرے سے آگاہ کرنے والی ٹیکنالوجی کمپنی جو کینڈا میں ہے بلیو ڈاٹ Blue Dotوہ بھی پاکستانی ڈاکٹر کامران خان کی ہے ۔ آپ ان سے سافٹ ویئر خرید لیں۔ کوئی لاکھ ڈالر ماہانہ میں سبسکرپشن ملتی ہے۔

گروسری ایپ –  ایسی ایپ متعارف کروائی جاسکتی ہے جس کی مدد سے لوگ آن لائن سودا سلف خرید سکیں۔ جیسے امریکہ میں انسٹاکارت ہے۔

ڈرونز – ڈرونز کو سڑکوں اور مارکیٹ پر نظر رکھنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ یہاں لوگ جمع ہیں یا کرفیوکی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے۔

Risk Assessment کیونکہ یہ فلو کا سیزن ہے اور جیسے جیسے اس وباہ کی آگہی بڑھے گی ہر شخص کو یہ محسوس ہوگا کہ اسے بھی کرونا ہےَ مقامی زبانوں میں ایک سادہ سی ویب سائٹ یا ایپ یا کال سینٹر ز کے ذریعے ہر شخص چند سوالوں کے جواب دیکر معلوم کر پائگا کہ  اس میں کرونا کی علامت ہیں یا نہیں۔ وہ ڈاکٹرکے پاس جائے، گھر میں سیلف آئسولیشن میں چلا جائے یا کوئی فکر نہ کرے۔ اسی سادہ سی ویب سائٹ سے ہم آپ ہسپتالوں کا لوٖڈ ہزاروں کی تعد اد میں کم کریں گے۔ فارغ بیٹھے بنکوں کے کال سینٹرز یا موبائل فون کمپنیز کے کال سینٹرز بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔

QTechلوگوں کو معلومات دیں کہQuarantine Techکیا ہے؟ وہ کس طرح گوگل کلاس، گوگل شیٹ، سلیک، بیس کمپ ، بلیو جینز ، اِسکائپ اور اس جیسے درجنوں ٹولز استعمال کرکے گھر بیٹھے آفس کے سارے کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

Detection  تھرمل کیمروں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے مریضوں کی شناخت کے عمل کو خاطر خواہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آپ Kaggleپر موجود ڈیٹا سیٹ اورچیلنجز کو ضرور دیکھیں۔

تخمینہ لگائیں
یہ وبا کتنے لوگوں تک پھیلے گی؟ کتنی تیزی سے پھیلے گی ؟ کتنے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور ہم آج کیا کرسکتے ہیں کہ اس تعداد کو کم کیا جا سکے، رفتار کو سست کرسکیں اور وبا کو روک سکیں۔ یہ ساری کہانی ہے جو کرونا کی پریڈکشنpredictionاور ڈیٹا سائنس کے گرد گھومتی ہے۔

پاکستان میں یہ اندازہ کیسے لگایا جائے؟
آئیے بنیادی جانکاری سے شروع کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایک سو بہتر ممالک میں ساڑھے چار لاکھ مریض سامنے آچکے ہیں۔ تقریباََ بیس ہزار اموات ہوچکی ہیں اٹلی نے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں سات سو اُنتیس جنازے اٹھائے ہیں اور امریکہ نے سو۔ ہلاک ہونے والے لوگوں کی عالمی اوسط چار فیصد ہے مگر یہ ملک پر منحصر ہے اور لوگوں کی عمراور میڈیکل کیفیت پر۔ جاپان میں مرنے والوں کی اوسط تین فیصد، اسپین میں چار اشاریہ چھ فیصد، برطانیہ میں پانچ فیصد، تو ایران میں سات فیصد، انڈونیشیا اور فلپائن میں آٹھ فیصد تو اٹلی میں آٹھ اشاریہ دو فیصد۔

بوڑھوں میں شرع چودہ اشاریہ آٹھ فیصد، تو دل کے مریضوں میں تیرہ اشاریہ دو فیصد ، ذیابیطس کے مریضوں میں نو اشاریہ دو فیصد، تو کینسر کے مریضوں میں سات اشاریہ چھ فیصد، سانس کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے لئے آٹھ فیصد۔ مردوں کے لئے چار اشاریہ سات فیصد اور عورتوں کے لئے دو اشاریہ آٹھ فیصلد۔ دنیا میں ہر منٹ میں ١٨ نئے مریض سامنے آرہے ہیں.

پاکستان میں ہمارے اندازے کے مطابق یہ اوسط سات فیصد رہے گی۔ ہمارے ملک میں آٹھ ملین بوڑھے لوگ ہیں، دل کے مریضوں کی تعداد بتیس ملین ہے ذیابیطس کا شکار ہر چوتھا شخص ہے۔ سینتیس اشاریہ پانچ ملین اور سترہ ملین لوگوں کو ھیپاٹائٹس بی یا سی ہے۔ ایبولا وائرس نے چار سالوں میں اتنے لوگ نہیں مارے جتنے کرونا نے تین مہینوں میں مار ڈالے۔

اگر ہم نے مکمل شٹ ڈاوئن نہیں کیا تو اگلے ایک ماہ میں دس ہزار یا اس سے زیادہ مریض ہوں گے اور اگلے تین ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار نو سو چرانوئے تک جا پہنچے گی۔

کرونا کے مریض پر شروع کے پانچ دن تک کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ پانچویں روز سے دسویں دن تک آثار نمایاں ہوتے ہیں پھر دس سے چودہ دن تک ہسبتال اور آئی سی یو۔ کوئی پچیس دن میں فیصلہ ہو جاتا ہے کہ بندہ آر یا پار۔

اگر عالمی سطح پر رپورٹ کئے جانے والے کیسیز اور وہ لوگ جو خود بخود ٹھیک ہوگئے کو جمع کریں اور پھر مرنے والوں کی اوسط نکالیں تو یہ صفر اشاریہ آٹھ فیصد بنتی ہے یعنی ہر ایک سو پچیس میں سے ایک جان سے جائے گا۔

ہم نے چوبیس مارچ کو آٹھ ہلاکتیں کنفرم کیں یعنی پچیس دن پہلے انتیس فروری کو ہمارے ملک میں ایک ہزار کیسز تھے جب کہ ہمیں صرف تین  کی خبر تھی۔ اس حساب سے پاکستان میں اس وقت کرونا کے دولاکھ تئیس ہزار پانچ سو چھیانوئے مریض ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ ٹھیک ہوجائنگے۔ مگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ  صوتحال آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

اب اس ماڈ ل میں آپ موسمی درجہ حرارت، غیرملکوں کے اسفار، لوگوں کی آمدورفت، مریضوں کی منتقلی، اور ایسے ہی درجنوں ویری ایبلز شامل کرتے چلے جائیں، ماڈل پیچیدہ ترین اور قیاس قریب ترین ہوتا چلا جائے گا۔

علماء کرام کا کردار
اس وبا سے نمنٹنے کے لئے ہمارے ملک میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ علماء کرام کا ہے۔ نہ وزیراعظم کا ، نہ آرمی چیف کا  نہ کہ ڈاکٹر یا نرس کا۔ ہم ہمیشہ سے ایک جذباتی قوم چلے آئے ہیں، مختصر یاداشات، کتابوں سے محرومی اور خانقاہوں سے دوری ہمیں اس جگہ لے آئی ہے جہاں سچ اور جھوٹ میں کوئی فرق نہیں بچا۔ جس کا جو مرضی آئی بول دیا،  گھڑ لیا، مان لیا اور آگے فارورڈ کر دیا.

صٖٖفائی ستھرائی اور پاکی ناپاکی پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے کسی اور مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ وبا سے بچنے کی تدبیر کرنا اور پھر اللہ پر توکل رکھنا اتنا ہی شرعی ہے جتنا نماز اور روزہ۔

وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا نہ ہی اسے اچھے برے کی تمیز ہے وہ تو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے اور اس دوران کتنے ہی لوگ ہلاک ہوجائیں اس کی بلا سے۔

کعبے میں طواف رک گیا تو قیامت آجائے گی۔ ارے بھائی، سیاق و سباق کے ساتھ دیکھو۔ اور بھی بہت سی نشانیاں پوری ہونی ہیں ساتھ میں۔ نہ کوئی پہلی بار وباء آئی ہے نہ ہی پہلی بار طواف رکا ہے۔ سن دو سو اکاون ہجری میں اسماعیل بن یوسف نے ایک لاکھ سے زائد حاجیوں کو قتل کر دیا اور اس سال حج نہ ہو سکا۔ تین سو سترہ ہجری میں  قرامطہ والے ہجرہ اسود نکال کر لے گئے اور حج دس سال تک موقوف رہا تین سو ستاون ہجری میں بالکل آج کی طرح ماشری نام کی وبا پھیل گئی۔ بہت سے حاجی انتقال کر گئے اوربہت کم لوگوں نے حج کیا۔ تین سو نوئے اور چار سو بانوئے ہجری میں بھی حج نہ ہوسکا کہ مہنگائی اور راستوں کے خطروں نے حاجیوں کو روکے رکھا۔ بارہ سو چھیالیس ہجری میں ہندوستان میں ایک کثیر تعداد حاجیوں کی انتقال کر گئی وبا کی وجہ سے۔ اٹھارہ سو اکتر میں کولیرا پھیلا مدینہ شریف میں اور اکثریت کا انتقال عرفات ومنیٰ میں ہوا۔ ابھی حال ہی میں ١٩٧٩ میں(١٤٠٠ ہجری کے پہلے دن) جہےمان نے دعوت المہتسبہ (تحریک انصاف) کے نام سے گروہ بنایا اور کعبہ پر قبضہ کر لیا ، دو  ہفتوں کی لڑائی ، سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد حرم واپس ملا تو بھی طواف بند ہی تھا.

اللہ ناراض ہیں سزا دی ہے – اللہ خود فرماتے ہیں پانچویں پارے کی آخری آیت میں۔ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں عذاب دیں، اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آو۔

تو کریں شکر ادا۔

اللہ نے مسجدیں بند کردیں – اللہ بے نیاز ہے۔ صفت الصمد دنیا پر برس رہی ہے۔ نہیں ضرورت اسے ہماری حاضریوں کی۔ اس کا کیا جاتا ہے، وہ مالک ہے، وہ پھر دے  رہا ہے۔ گھر اس کا، بندے اس کے، عبادت اس کی، جسے چاہے بلائے، جب چاہے بلائے، جب چاہے سب لپیٹ دے۔ آپ کیوں ٹینشن لیتے ہیں؟ بس استغفار کریں اور لگے رہیں کہ اس کے سوا در کوئی ہے نہیں۔  میرا ایک دوست عبداللہ کہتا ہے کہ زندگی کی اداسی، جنت کی منتظر ہے۔ جب تک نعمت چھن نہ جاوے قدرنہ ہووے ہے۔

ع

وہاں میرے سوا سب کچھ ملےگا

یہاں اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

 

کیا شان ہے میرے اللہ کی، یہ شاید پہلا حادثہ ہے کہ دنیا داروں کے ساتھ ساتھ دینداروں کو بھی صدمہ لگ گیا ہے کہ اسے کسی کی کھاج نہیں۔

علمائے کرام اپنے منبر کو آئی سی یو اور لاوڈ اسپیکر کو وینٹی لیٹر سمجھیں اور اس جذباتی قوم کو سمجھائیں کہ گھر بیٹھیں۔ اللہ سائیں کو طاقتور مومن زیادہ پسند ہے بہ نسبت کمزور و بیمارمومن کے

ہم انشا اللہ اس مصیبت سے جلد نکل آئیں گے۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے۔ عرشِ بریں کا مالک ہے۔ لوگ ثواب تو کیا گناہ سے بھی گئے۔ اتنی پھیکی دنیا تو شاید اسے بھی نہیں پسند۔ ہمت و حوصلہ رکھیں۔ دعا اور احتیاطی تدابیر کریں۔ تھوڑا وقت ہے  گذر جائے گا۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر!


ذیشان الحسن عثمانی
25 مارچ 2020

Previous Post Next Post