بطخ کے بچے جب انڈوں سے نکلتے ہیں، تو اول اول جھیل میں بطخ کے اوپر سوار اترتے ہیں. بطخ انکو لیکر تیرتی ہے. چند دن بعد اچانک ایک دن بطخ اپنا بدن جھٹکتی ہے اور بچے پانی میں گر جاتے ہیں. فطرت راہنمائی کرتی ہے اور جبلت کچھ ہی دیر میں انکو تیراک بنا دیتی ہے

فرض کیا بطخ یہ نہ کرے تو کیا ہوگا.؟
ہر گزرتے دن بچوں کا وزن بڑھتا چلا جائے گا. اور بطخ ان کے وزن سے ہی ڈوب جائے. یہی حال ہم انسانوں کا ہے. ہم بچوں کو سرد و گرم سے بچاتے بچاتے فطرت کی راہ میں مزاحمت شروع کر دیتے ہیں. یہ بھول جاتے ہیں جس رب نے ہمارے لئے انکے تحفظ کی قوت و ہمت ودیعت کی. اُسی رب کے ہی یہ بندے ہیں. ہم انکی زندگیوں کو ریموٹ کنٹرول کی طرح پیرنٹ گائڈ کنٹرول سے باندھ دیتے ہیں. وقت گزرتا ہے. انکا بوجھ بڑھ جاتا ہے. اور ہم تھک ہار کر ایک دن کوئی ایک قصہ کوئی ایک وجہ پکڑ کر انکو جھٹک کر دور کردیئے ہیں. اچانک بڑا بچہ دنیا کے بازار میں تنہا اپنی ذمہ داری کیلئے کوشاں ہو جاتا ہے. تب اس کے پاس سب کچھ ہوتے بھی اعتماد نہیں ہوتا. کہ اعتماد لینے کے دور میں ہم نے اپنے خود ساختہ خوف کے پردوں میں انکو چھپا رکھا ہوتا ہے.
اپنے بچوں پر اعتماد کریں. انکو زندگی کے بازار کو سمجھنے دیں. یاد رکھیں چلنا سکھانے کیلئے انگلی پکڑی جاتی ہے. کندھوں پر بھٹا کر رکھنے سے وہ چلنا نہیں سیکھے گا.

جمشید علی 


Previous Post Next Post